میں نے اسے کل پہلی بار دیکھ جب اسکا باپ اسے جاں بلب حالت میں گھر لایا ۔ ''صبغت اللہ صاحب سے ملنا ہے کیا وہ گھر پر ہیں''؟ میں نے کہا جی ہاں آ جایۓ ۔۔ مین گیٹ سے ڈرائینگ روم تک کے مختصر سے فاصلے تک میں نے ان کے پیچھے چلتے ہوۓ سینکڑوں باتیں سوچ لیں۔
اس وجود کو صوفے پر لٹانے کے بعد وہ صاحب بولے! یہ میری بیٹی ہے مُرک اسی کے علاج کے سلسلے میں ہم صبغت اللہ صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ ابھی میں نے یہ پوچھنے کے لۓ کہ اسے ہوا کیا ہے منہ کھولا ہی تھا کہ میرے سسر کمرے میں داخل ہوۓ اور کہا اچھا ہوا تم آگۓ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے۔اس کے بعد وہ ان اجنبی میاں بیوی اور ان کی بیٹی کو لے کر نکل گۓ۔
رات کے کھانے پر میں نے ان سے اس لڑکی کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ یہ بچی شہر میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے جعلی کلینکس اور ڈاکٹروں کی بھینٹ چڑھ گئ ہے۔۔بیماری کی درست تشخیص نا ہونے اور غلط دوائیں کھانے سے اس کے گردے ناکارہ ہوگۓ ہیں اور جگر نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے،،ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں مگر یہ دونوں اس بات کو ماننے کو تیار نہیں،تم چلی جانا کل اس کی عیادت کرنے۔
وہ کل آئ ضرور مگر مُرک کو اپنے ساتھ لے گئ،میں نے اسکا چہرہ نہیں دیکھ،کیوں دیکھتی مجھے اسکے منہ پہ مرک(مسکراہٹ،، کی تلاش تھی،وہ مسکرہٹ جو چند رپوں نے چھین لی نا ہنجار اتائ ڈاکٹر نے۔
ڈاکٹر صاحب !آپ نے جو پیلی گولی دی تھی اس سے تو کوئ فائدہ نہیں ہوا''
آپ ایسا کریں یہ لال گولی کھا لیں۔۔
جب ڈاکٹر اور مریض کے درمیان اس طرح کا مکالمہ ہو تو پھر ہمیں مرکوں کے مرنے کا غم بھی نہیں منانا چاہۓ،اس طرح کے حادثات تو اب معمول بن چکے ہیں۔۔۔
5 تبصرے:
افسوس اس بات پر ہے کہ کوئی ان جعلی ڈاکٹروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتا ۔
انتظمیہ کی ملی بھگت اور قانون سے لمبے ہاتھوں کا رونا تو ہم روتے ہی ہیں لیکن شعور کی کمی کا کیا کیا جاۓ
یہاں ایک ہاسپٹل ہے اس میں ایک لڑکا جو پہلے میل نرس تھا اب ڈاکٹر بنا بیٹھا ہے اور چھوٹے موٹے آپریشن تک کرتا ہے خواتین کروا بھی لیتی ہیں ۔۔۔
کس کس بات کو روؤ گے؟
خونی انقلاب بھی اس کتی قوم کا کچھ نی بگاڑنے والا
سونامی شونامی تو خیر کسی گنتی میں ہی نہیں
حجاب: اس لڑکے کا کیا قصور، اسکی مریضائیں مشکوک لگ رہی ہیں مجھے تو
تبصرہ کیجیے
اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔