گا جر کا پیندہ، گل خیرے کا پھول

بچپن  سب کا ہی اچھا گذرتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا یہ کہنا کا زندگی کا بہترین دور ہی بچپن کا تھا تو یہ بات بھی معقول ہے۔جیسا کہ میرا بچپن،نہیں یاد پڑتا کے کبھی معصوم سی شرارتیں کی ہوں گی،ہمیشہ مار پڑنے والے کام اور بڑے بڑے نقصانات ہی کۓ۔گلی ڈنڈا اور کنچے کھیلتے ہوۓ خیال آیا کہ کچھ کھیل لڑکیوں والے بھی کھیلنے چایۓ،اس لۓ ایک خوبصورت سی گڑیا کی تلاش شروع کی،گڑیا ملی تو لیکن وہ خوبصورت ہرگز نا تھی۔گھٹیا پلاسٹک کی بنی ہوئ جس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ڈھالے انداز میں الاسٹک کے ساتھ بندھے ہوۓ تھے۔
پچانویں کے اوئل میں اپنی 6 انچ  بلند گڑیا کی شادی کا سوچا،میری سمدھن میرے پڑوس میں رہتی تھی لیکن اسکا گڈا تو میری گڑیا سے بھی زیادہ نظر پن تھا۔طے یہ پایا کے ایک دن کی شادی ہوگی اور پھر اس کے بعد ہم اپنے گڈے گڑیا کو واپس لے لیں گے۔مقررہ دن پر سب کزنز جمع ہوۓ اس لالچ میں کے ان کی تواضع شیرخرمے سے کی جاۓ گی۔قاضی کون بنے گا تھوڑا رولا تو پڑا لیکن قرعہ فال عبداللہ کے نام کا نکلا۔
قاضی صاحب نے نکاح پڑھانا شروع کیا!
''گاجر کا پیندہ گل خیرے کا پھول کہو میاں گڈے تمہیں گڑیا قبول''
نکاح ہوتے ہی میں نے حبیب گھی کا ڈھائ سیر والا کنستر اٹھایا اور نکل پڑے سب جلوس کی شکل میں کالونی کی گلیوں میں سنگیت پریڈ کرتے ہوۓ بے سرے راگ الاپے!
باغ وچ امب تر دا
اسی کڑی نا دیندے
منڈا موچیاں دا کم کردا  
باغ وچ آیا کرو
کنگھی شیشہ میں دیندی آں
تسی ٹنڈ لشکایا کرو
اسی طرح چیختے چنگھاڑے ہوۓ گھر میں انڑی ماری تو اس خبر نے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی کہ قاضی اور اس کے حواری شیر خرمہ چٹ کر چکے ہیں۔یہ سننا تھا کہ ڈھول (کنستر پھینکا ایک طرف اور پھر گھمسان کی جنگ ہوئ،کافی دیر لڑنے کے بعد رخصتی کا خیال آیا تو معلوم ہوا کہ اس لڑائ میں گڑیا جام شہادت نوش کر چکی ہیں اور سمدھن بھی کنگھی شہشے اولے ٹپے پے اعتراض کرتی ہوئ اپنا نظر پن گڈا واپس لے گئ یوں یہ شادی خون ریز تصادم کے بعد فنا ہوگئ،

مرک (مسکراہٹ) جو مرجھا گئ

میں نے اسے کل پہلی بار دیکھ جب اسکا باپ اسے جاں بلب حالت میں گھر لایا ۔ ''صبغت اللہ صاحب سے ملنا ہے کیا وہ گھر پر ہیں''؟ میں نے کہا جی ہاں آ جایۓ ۔۔ مین گیٹ سے ڈرائینگ روم تک کے مختصر سے فاصلے تک میں نے ان کے پیچھے چلتے ہوۓ سینکڑوں باتیں سوچ لیں۔
اس وجود کو صوفے پر لٹانے کے بعد وہ صاحب بولے! یہ میری بیٹی ہے مُرک اسی کے علاج کے سلسلے میں ہم صبغت اللہ صاحب سے ملنا چاہتے ہیں۔ ابھی میں نے یہ پوچھنے کے لۓ کہ اسے ہوا کیا ہے منہ کھولا ہی تھا کہ میرے سسر کمرے میں داخل ہوۓ اور کہا اچھا ہوا تم آگۓ پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے۔اس کے بعد وہ ان اجنبی میاں بیوی اور ان کی بیٹی کو لے کر نکل گۓ۔
رات کے کھانے پر میں نے ان سے اس لڑکی کے بارے میں پوچھا تو بتایا کہ یہ بچی شہر میں کھمبیوں کی طرح اگنے والے جعلی کلینکس اور ڈاکٹروں کی بھینٹ چڑھ گئ ہے۔۔بیماری کی درست تشخیص نا ہونے اور غلط دوائیں کھانے سے اس کے گردے ناکارہ ہوگۓ ہیں اور جگر نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے،،ڈاکٹر اس کی زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں مگر یہ دونوں اس بات کو ماننے کو تیار نہیں،تم چلی جانا کل اس کی عیادت کرنے۔
وہ کل آئ ضرور مگر مُرک کو اپنے ساتھ لے گئ،میں نے اسکا چہرہ نہیں دیکھ،کیوں دیکھتی مجھے اسکے منہ پہ مرک(مسکراہٹ،، کی تلاش تھی،وہ مسکرہٹ جو چند رپوں نے چھین لی نا ہنجار اتائ ڈاکٹر نے۔
                                                                                                                                                                         ڈاکٹر صاحب !آپ نے جو پیلی گولی دی تھی اس سے تو کوئ فائدہ نہیں ہوا''
آپ ایسا کریں یہ لال گولی کھا لیں۔۔
جب ڈاکٹر اور مریض کے درمیان اس طرح کا مکالمہ ہو تو پھر ہمیں مرکوں کے مرنے کا غم بھی نہیں منانا چاہۓ،اس طرح کے حادثات تو اب معمول بن چکے ہیں۔۔۔

ابتدایئہ

 وہی جو دکھ بھرے موسم کی ویرانی میں سینون پر دھنک لمحوں کی خوشبو سے مہکتا ہاتھ رکھتا ہے،دلوں کو جورتا ہے اور پھر ان میں محبت نام کی سوغات رکھتا ہے،سفر میں راستے گم ہوں یا رداۓ گمراہی کتنی ہی میلی ہو اور غموں کی دھوپ میں پھیلی ہو۔۔
اسے کوئ کہیں کس حال میں بھی آواز دیتا ہے وہ سنتا ہے۔۔بہت ہی مہربان ہے اور رحم کرتا ہے۔۔وہ سچ ہے اور سچ بولنے کا حکم دیتا یے۔۔ سو اس کو یاد کرتے ہیں اور اسی کے نام سے آغاز کرتے ہیں۔