بٹ کہانی

پتا کرو انھاں دا خورے مر کھپ گۓ ہون گے مبلیل وی بند پۓ نیں ہن بندا کتھوں کبھ کے لیاوے ۔۔ یہ وہ سپاس نامہ ہے جو تائ نے قصائ کے کھلے دھوکے پر پڑھا ۔۔ آٹھ بجے آپ کے دروازے پر کھڑا ہوں گا کہہ کر جانے والا قصائ بارہ بجے بھی نہیں آیا تو گھر میں سب سے زیادہ وٹ تائ کو ہی چڑھے ، بےچینی بڑھتی جا رہی تھی اور ہماری اس کیفیت کا مزہ صحن میں بندھے بیل نے بھی خوب اچھل کود کر لیا ۔ دن میں ڈٹ کر کھانے کی آس نے صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا بس ہلکی سی ناشتی کی محض ایک پراٹھا اور تین کپ چاۓ ۔۔۔
بارہ تیس پر بھائ کہیں سے دو چھٹانک بھر کے قصائ پکڑ لایا جنھیں دیکھ کر میری ہی کیا یقین ہے بیل کو بھی ہنسی آگئ ہو گی، تائ نے قصائیوں کو خوب جگتیں لگائیں کہ وے تہاڈے کولوں ڈگ پینا یا میں وی لگاں نال ،، پھر ابا کو مخاطب کر کے بولی !''ویرا کسی جان والے نو بلا اونج ای تیرے تے انھاں دی ہڈی جوڑانے دی پھٹیک وی پے جانی جے "
تو قصائ نے تنگ آ کر کہا او مائ چُپ کر اور دیکھ میرا تماشا یہ کہہ کر انھوں نے کچھ ہی دیر میں کئ من وزنی جانور گرا لیا اور فاتحانہ نظروں سے انھیں دیکھنے لگے تو تائ نے کیا شوہدے جۓ ۔۔
باقی سارا کام سست روی سے ہوا تو ہماری خاندانی کھابی تارٰیخ میں پہلی بار بقر عید کے دن مرغ پلاؤ بنا اور میں جو کلیجی کے انتظار میں سوکھ کر تیلا ہو رہی تھی میرے ہاتھ مرغی کی پھنگلیٹ (پر) ہاتھ آیا ،،،لیکن کوئ گل نئ ڈنگر اپنا ہے ۔۔
(نوٹ یہ ساری بکواس لکھنے کا مقصد ہمدردی بٹورنا ہے کہ بقر عید پر بھی کسی کہ گھر مرغ پکتا ہے اور وہ خاص طور پر بٹ گھرانو میں آپ خود سوچیں)